چینی حکایت: اردو بولنے والے مہاجروں کے لیے ایک سبق!

چینی حکایت: اردو بولنے والے مہاجروں کے لیے ایک سبق!

“دنیا میں تمام قومیتوں کو اپنی بقاء کے لیے لازما” جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔ بقاء کی جدوجہد میں خود بخود اعلٰی اور ادنیٰ کا فرق بنتا چلا جاتا ہے۔ اس جدو جہید کے دوران کامیابی اور ناکامی کا منہ بھی دیکھنا پڑتا ہے۔ وہ قومیتیں جو اپنے آپ کو ادنی تسلیم کرلیتی ہیں جب وہ ناکام ہونا شروع ہوتی ہیں تو اعلیٰ تصور کی جانے والی قومیتیں ادنیٰ سمجھی جانے والی قومیتوں کے حقوق غصب کرنے کا عمل اور تیز کردیتی ہیں۔ اگر یہ عمل جاری رہے تو پھر ادنیٰ تصور کی جانے والی قوم کرہ ارض سے غائب ہوجاتی ہے۔”

اگر قریب کی صدیوں کو غور سے دیکھا جائے تو دنیا میں کئی ایسی قومیتیں ہیں جو کرہ ارض سے غائب ہوچکی ہیں۔ اگر غائب نہیں ہوئیں تو وہ کسی بڑی قومیت میں مدغم ہوکر تحلیل ہی ہوگئیں۔ جب برطانیہ نے 1830 میں ٹسمانیہ آسٹریلیا کے شمال میں واقع ایک علاقے پر قبضہ کیا تو اس میں رہنے والے ابورجینیز کا بے پناہ قتل کیا گیا اور باہر سے آئے ہوئے لوگوں نے آہستہ آہستہ ختم ہی کردیا۔ اسی طرح صومالیہ میں جاری جنگ و جدل اور قبضے کے عمل نے مسلم لسانی اکائی ہرالہ کو صومالیہ میں غائب کردیا۔ اسی طرح امریکہ سے نیٹو امریکیوں کا غائب ہوجانا چند مثالیں ہیں طوالت کی گنجائش نہیں ورنہ اور باتیں لکھی جاسکتی تھیں۔

پاکستان کے دو صوبوں پنجاب اور کے پی کے میں اردو بولنے والے مہاجرین مزاہمتی رویہ نہ اپنا سکے اس وجہ سے گذشتہ 67 سالوں میں ان دونوں صوبوں میں پہلے تو وہ پنجابی اور پٹھان بنے پھر بعد میں انکے گھروں میں بھی وہی کلچر کم وبیش سرائیت کرگیا۔ یعنی پنجاب میں تو یہ قومیت باقاعدہ غائب ہوگئی۔ اتنا وسیع ثقافت اور اپنی زبان رکھنے والی قومیت ان دونوں صوبوں میں اپنی ثقافت سے علیحدہ ہونے یا چھپانے پر مجبور ہوگی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس وجہ کیا ہے جواب وہی ہے ریاستی مشینری کی قوت اور لسانی تعصب نے پنجاب اور کے پی کے کو برتر اور مہاجروں کو ادنیٰ بنا دیا۔ مہاجر پہلے صوبے پھر محلے سے پیچھے ہٹے اور برتر کے تاثر نے مہاجروں کو ان صوبوں سے ناپید کردیا۔ اب یہ بزرگوں کی روحوں اور نوجوانوں کی اُمیدوں میں تو زندہ ہے مگر حالات انھیں اپنے کلچر کو چھپانے یا تحلیل شدہ حالت میں رکھنے پر مجبور کرتے ہیں۔

بعینہ یہی صورت حال شہری سندہ کی بھی ہے۔ مہاجر شہری سند ہ خصوصا” کراچی میں دیہی سندہ کے حکمرانوں اور وڈیروں کے سامنے آہستہ آہستہ بے بس ہوتے چلے جارہے تھے۔ اردو بولنے والے مہاجروں کے حقوق غصب کرنے کے لیے آئین پاکستان کا سہارا لیتے ہوئے کوٹہ سسٹم کا نفاذ کیا گیا جس نے مہاجروں پر ملازمتوں کے دروازے بند کردیے۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے مہاجر بڑی تعداد میں روزگار کے حصول کی خاطر بیرون ملک چلے گئے۔ اس صورت حال کے باوجود مہاجر صنعت کاروں نے بھی بڑی محنت سے اپنا سرمایہ بہتر طریقے سے استعمال کیا اور اپنی صنعتی اداروں کو کمال کی حد تک پہنچا کر کراچی میں ملازمتوں کے بہتریں مواقعے پیدا کیے ۔  لیکن یہاں کثیر تعداد میں باہر سے لوگ یہاں تک افغانستان سے غیرملکیوں کو لاکر بسایا گیا اور مہاجروں کی ریاستی فلاحی سپورٹ کے نا ہونے کے باوجود بقاء کی جدوجہد اور مزاہمتی رویے میں روکاوٹیں ڈالی گئیں۔ سندہ کے مہاجرین کے تمام تعلیم اداروں اور منافع بخش کاروبار کو ایک دن اچانک قومیا لیا گیا۔ 

ملازمتوں کی نایابی کے باعث چھوٹے مہاجر تاجروں نے صدر، بنس روڈ، آرام باغ، پاک کالونی، لیاری اور ماڑی پور جیسے علاقوں میں چھوٹے کاروبار کی بنیاد ڈالی۔ مگر لیاری میں پچھلے 10 سالوں میں باقاعدہ سندہ حکومت کی سرپرستی میں ایک لیاری گینگ کو بنایا گیا جس ان علاقوں میں مہاجروں کا داخلہ ختم کردیا۔ یہاں قتل و غارت گری کو چھوڑ کر صرف معاشی تباہی کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ لیاری کی بات کی جائے تو اس بات کا اندازہ کرنا بہت مشکل ہوگا کہ وہاں کی بدامنی نے لاتعداد اردو بولنے والے دکانداروں، صنعت کاروں، اور چھوٹے تاجروں کو تباہ و برباد کردیا ۔ لیاری اور اسکے ارد گرد کے علاقے ہزاروں گودام واقع تھے۔ جہاں سے اربوں کا کاروبار ہوتا تھا اور لاکھوں لوگوں کو روزگار میسر ہوتا تھا۔ لیاری کی بدامنی نے اس کاروبار کو بھی تہس نہس کردیا۔ لیاری میں گینگ وار کے ذریعے بڑی تعداد میں مہاجروں کو ان علاقوں سے بیدخل کیا گیا اور انہیں بے روزگار کیا گیا۔

شہری سندہ میں پنجاب اور کے پی کے مقابلے میں صورت حال مختلف ہے۔ خوش قسمتی سے سندہ شہری کو جناب الطاف حسین کی قیادت میں ایک نمائندہ جماعت مل گی جو انھیں ادنی اور محروم طبقہ ہوجانے سے بچانے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔ افسوس صد افسوس کہ پاکستانی میڈیا بھی سندہ سے اردو بولنے والے مہاجرین کو تحلیل کردینے کے عمل میں ایک آلہ کار کے طور پر غاصب قوتوں کے ساتھ کھڑا ہے اور مزاہمت کرنے پر اس جماعت کو باقاعدگی سے دہشت گردی کے ساتھ منسلک کرکے منفی پروپگینڈہ کررہا ہے۔ ریاستی ادارے انصاف کے بجائے دوسری جانب کھڑے ہیں۔ پنجاب کا عالم یہ ہے کہ اپنے صوبے سے مہاجر قومیت کو غائب کردینے کے بعد سندہ میں اس عمل میں اپنا حصہ ڈال رہا ہے۔ اس جماعت کے قائد کی تحریر، تقریر یہاں تک تصویر پر عدالت کے ذریعیے پابندی لگا دی گئی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ عدالتوں نے نظریہ ضرورت ترک کردیا ہے لیکن مہاجروں اور انکی نمائیندہ جماعت کے لیے شائد اس نظریہ کی ضرورت اب بھی باقی ہے۔ ان تمام باتوں کے باوجود شہری سندہ میں پسپائیت کے بجائے مزاہمت میں تیزی آتی جارہی ہے۔ 

 


Leave a comment